Sep 2022 27 تحریری مقابلہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
💚💚💗💗💚صبر💚💗💗💚💚
*********************
نازیہ کے ایچ ایس امتحان ختم ہوتے ہی اس کی شادی طے کر دی گئی وہ بھلا کیا کرسکتی تھی !!؟ وہ تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی مگر چچا چچی کے زیر سایہ ایک یتیم لڑکی کو اپنی مرضی سے کچھ کہنے اور کرنے کا حق حاصل نہیں تھا ۔اس نے خود کو وقت اور حالات کے سپرد کر دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔
نازیہ رخصت ہو کر اپنے سسرال پہنچ گئی ایک نئی زندگی کا خواب سجاۓ ہوۓ جہاں اسے اپنے ہمسفر کی مرضی سے چلنا ہوگا ۔ ساس دل کی بری نہیں تھی مگر کان کی کچی تھی کسی کے بہکاوے میں جلد آجاتی تھی اور جب بات کی تہہ تک پہنچتی تو معاملہ سمجھ جاتی مگر اس وقت تک تو کتنوں کی دل آزاری کر چکی ہوتی ایسے لوگوں کو ہینڈل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے اس لیے نازیہ تھوڑی پریشان تھی مگر چچا چچی کے سخت سلوک و برتاؤ نے اسے مضبوط اور سمجھدار بنا دیا تھا وہ وقت اور حالات سے سمجھوتہ کرنا بخوبی جانتی تھی ۔
یتیمی کا داغ بچپن میں مل چکا تھا ننھے سے دل نے اسی وقت سے برداشت کرنا سیکھ لیا تھا ۔چچی کی کڑوی کسیلی باتیں اس کے معصوم ذہین و دل پر وار کرتے وہ مظلومیت کی چادر میں لپٹی خاموشی سے کسی گوشے میں چھپ کر آنسو بہا لیا کرتی ۔ کیا کرتی بیچاری ! نہ ممتا کا آنچل تھا اور نہ ہی بات کی محبت وشفقت کا مضبوط سہارا ۔
اس نے صبر کا دامن مضبوطی سے تھام لیا وہ جانتی تھی کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اس نے لوگوں سے سنا اور پڑھا بھی تھا کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے یہ جملے نازیہ کو حوصلہ دیتے اور مستقبل کے خوشگوار لطیف لمہوں کا احساس دلاتے
جب چچا چچی نے شادی طے کر دی تب ہی سے نازیہ نے اپنے آپ کو تیار کر لیا تھا کہ جیسا بھی سسرال ہو یا پھر شوہر وہ نبھا کر لے گی۔ کبھی کبھی سسرال والوں کے مظالم اور زندہ جلا دینے والے واقعات کی خبریں سنتی وہ خوفزدہ ہو جاتی ۔نماز پڑھتی تو اللہ تعالی سے دعائیں کرتی۔
رات کے پچھلے پہر اٹھ کر وضو بناتی پھر تہجد کی نفل نماز ادا کر کے رب کائنات کے حضور ہاتھ اٹھا کر گڑگڑاتی ۔۔۔۔ :
یا اللہ ! تو سب جانتا ہے میں یتیم مجبور اور بے بس ہوں دلوں کے حال سے تو بخوبی واقف ہے۔ میں ہر حال میں تیرا شکر ادا کرتی ہوں تجھ پر ہی یقین و بھروسہ کرتی ہوں ۔ ہر دکھ و تکلیف پر صبر و تحمل سے کام لیتی ہوں تاکہ تو مجھ سے راضی ہو جائے ۔
اے مالک دو جہاں !! تو جانتا ہے کہ میں اپنی تعلیم کو آگے جاری رکھنا چاہتی ہوں مگر اب میرا مقدر کسی کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے تو بہتر جانتا ہے وہاں میرے نصیب میں کیا لکھا ہے ۔اے کاتب التقدیر !! بے شک تو مقدر سنوارنے اور بگاڑنے پر قادر ہے اپنے بندوں کے عقیدے اور عبادت سے تو نصیبا لکھتا اور مٹا کر دوبارہ لکھتا ہے ۔
اے میرے رب !! میں بھلائی کی امیدیں وابستہ رکھتی ہوں مجھ گنہگار بندہ کی جھولی بھر دینا ۔
دعاؤں کے بعد نازیہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتی اسے اطمینان تھا کہ مالک حقیقی تک اس کی عرضی پہنچ گئی ہے اب نیا گھر ، نئے لوگ اور ان کے درمیان نئی زندگی کا آغاز ۔۔۔۔۔۔۔!!
ایان بہت ہی نیک ،ہمدرد اور سلجھا ہوا نوجوان تھا چند دنوں میں ہی اس نے محسوس کیا کہ اس کی شریک سفر سہمی سہمی اور گھبرائی ہوئی رہتی ہے ۔کبھی کوئی فرمائش نہیں کرتی اور نہ ہی کسی خواہش کا اظہار کرتی ۔ بس گھر کے تمام لوگوں کی خدمت میں لگی رہتی ۔ ساس سسر کا ہر حکم بجا لاتی ہے ۔دیور نند کی دلجوئی میں لگی رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ شوہر کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا پورا خیال رکھنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہے ۔
ایان چاہتا تھا کہ نازیہ کسی بھی چیز کی خواہش یا فرمائش کرے جیسا عموما لڑکیاں شادی کے بعد اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کی کوشش کرتیں ہیں مگر نازیہ تو ان لڑکیوں سے بالکل مختلف تھی ۔
موسم برسات میں شام کا وقت تھا نازیہ نے گرم گرم پکوڑے کے ساتھ چاۓ بناکر ٹیبل پر رکھا تو گھر کے سبھی افراد کا چہرہ کھل اٹھا
نازیہ کی نند نے کہا،۔ واہ بھابھی آپ نے تو کمال کر دیا۔ آج شام کے ناشتے میں پکوڑے کھانے کی خواہش ہو رہی تھی اور آپ نے تیار کردیا ۔ ساس، سسر ، شوہر نند اور دیور سب کے چہروں کی خوشی دیکھ کر اسے قدرے اطمینان ہوتا جا رہا تھا نئے لوگوں کے دل میں مقام بنانا آسان نہیں!
رات کھانے کے بعد سب لوگ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے ایان نےاپنی بہن کے اسکول فائنل کی تیاری پر بات کرتے ہوئے نازیہ کی تعلیم کو جاری رکھنے کا مشورہ دیا ۔ ایان نے کہا: کل میں کالج کا فارم لے آؤں گا ۔تم فل اپ کردینا ۔
نازیہ کے سسر اور ساس کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا وہ لوگ تعلیمی معاملے میں بڑے فراغ دل تھے لڑکے لڑکیوں کو تعلیمی میدان میں برابر دیکھنا چاہتے تھے اس لئے بہو پر پڑھائی کے سلسلے میں کسی قسم کی پابندی نہیں تھی ۔
نازیہ نے جب سب کو ایک ساتھ ہی ایان کے ہاں میں ہاں ملانے سنا اور دیکھا تو اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک پڑے ۔ ساس نے اسے گلے سے لگا لیا بیٹا رونا کیسا!؟
تم میری بیٹی جیسی ہو ۔ تم جتنا پڑھنا چاہتی ہو پڑھو تمہیں اجازت ھے بس اپنے فرائض کو بھی سمجھداری سے نبھانا ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ۔
نازیہ نے فرط مسرت سے اپنی ساس کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور آنسو پونچھتے ہوئے کہا ،: شکریہ أمی! یہ تو خوشی کے آنسو تھے جو چھلک گئے ۔ اس نے باری باری سب کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ ایان کے ابو نے کہا چلیں اب سب سونے کی تیاری کریں ۔
نازیہ واش روم سے وضو بنا کر بیڈ روم میں آئی تو ایان کی آنکھوں میں محبت کی رنگینیوں کو محسوس کیا ۔اس نے مصلیٰ لیتے ہوئے کہا کہ پہلے حقیقی خدا کے حضور شکرانہ ادا کرلوں پھر مجازی خدا کی خدمت میں حاضر ہوتی ہوں ۔۔!
سچ ہے صبر و شکر اور اللہ پرایمان و یقین ہی ہمارے نصیب کو درخشاں ستارے کی مانند چمکا سکتا ہے اگر رب مہربان ہو جاۓ تو بگڑا نصیبا بھی سنور جائے کیونکہ وہی ہر شئے پر قادر ہے اور کاتب التقدیر بھی ...!!
✍️۔۔۔🍁 سیدہ سعدیہ فتح 🍁
Asha Manhas
03-Oct-2022 01:51 PM
بہت زبردست🖋️👍👍
Reply
Anuradha
29-Sep-2022 11:50 AM
Bahut khoob❤️❤️
Reply
Muskan Malik
29-Sep-2022 11:40 AM
واہ واااااااااا آپ نے بہت شاندار اور دلچسپ لکھا ہے
Reply